Ad Code

Adcash banner

متوقع شرح سود میں اضافہ کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں اضافہ کے اسباب کیا ہیں؟

 آنے والے دنوں میں بینکوں کی شرح سود میں اضافے کی توقع کے باوجود اسٹاک مارکیٹ بتدریج بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔ 
کاروبار میں حالیہ اضافے کو بہت سے لوگ ایک مثبت پہلو کے طور دیکھتے ہیں. مالیاتی پالیسی میں بینک ریٹ 1.5 فیصد سے بڑھا کر 8.5 فیصد، پالیسی ریٹ 7 فیصد اور ڈپازٹ کلیکشن(مجموعی جمع) ریٹ 5.5 فیصد رکھا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے توقع ہے کہ بینکوں کی لاگت میں اضافہ ہوگا اور صارفین کو قرض دینے کی شرح سود میں اضافہ ہوگا۔
Ad
بینکوں میں ایس ایل ایف (SLF) کا استعمال 7 فیصد پر ہوتا آرہا ہے جسے اب بڑھا کر ساڑھے 8 فیصد کر دیا گیا ہے. مالیاتی پالیسی میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا گیا ہے جس میں ایس ایل ایف کی مقدار کی حد مقرر کی گئی ہے جو کہ صرف 5 دنوں کے لیے ہی کارآمد ہوگا اور اس پر عمل درآمد مستقبل قریب میں ہوگا.
SLF ایک قرض کی سہولت ہے جو نیشنل بینک کی طرف سے کمرشل بینک کے پاس رکھے گئے سرکاری وعدہ نامہ(promissory note) وغیرہ کی ضمانت پر فراہم کی جاتی ہے۔ پچھلے سال بینکوں نے مطلوبہ لیکویڈیٹی ریشو (CRR) کو منظم کرنے کے لیے بڑی مقدار میں SLF کا استعمال کیا تھا. اسی طرح مالیاتی پالیسی کے ذریعے CRR جو 3 فیصد تھا کو بھی یکم اگست سے 4 فیصد پر برقرار رکھا گیا ہے جس سے سسٹم میں موجود تقریباً 50 ارب کی رقم راشٹرا بینک کے خزانے میں جائے گی۔
مالیاتی پالیسی میں منفی پوائنٹس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ اس ہفتے کے 6 کاروباری دنوں میں سے صرف 1 کاروباری دن سرخ رنگ میں بند ہوئی ہے۔
Ad

شیئر مارکیٹ میں اضافہ کے اسباب :

بہت سے سرمایہ کاروں نے اسٹاک مارکیٹ میں اضافہ کا سبب مالیاتی پالیسی کو زیادہ منفی نہ ہونے کو بتلایا ہے۔ 
شیئر تجزیہ کار مکتی آریال کے مطابق:۔ اگرچہ مارکیٹ کے بڑھنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے لیکن منفی مالیاتی پالیسی نہ آنے کے بعد تیزی سے گرنے والی اسٹاک مارکیٹ نے مثبت ردعمل دیا ہے۔
اس خیال کے برعکس کہ مارکیٹ میں 4-12 کروڑ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، ایک بینک سے صرف 4 کروڑ قرض لینے کی پالیسی پر نظرثانی کرکے ایک شخص کسی بھی بینک سے 12 کروڑ تک کا شیئر قرض لے سکتا ہے، اور اس ترمیم کو مالیاتی پالیسی میں شامل کیا گیا ہے.
Ad 
پچھلے سال کی مالیاتی پالیسی نے بھی ایک یا دو بڑے سرمایہ کاروں تک شیئرز قرضے کو محدود رکھنے کے بجائے بہت سے چھوٹے سرمایہ کاروں تک ایکویٹی قرض دینے کی پالیسی اپنائی تھی. سرمایہ کاروں کی شدید تنقید کے باوجود گزشتہ مالی سال کے دوران پالیسی میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی تھی. اس کے برعکس شیئر قرضوں میں بڑی رقم کے قرضے کم ہوئے ہیں جبکہ چھوٹی رقم کے قرضے بڑھنے لگے ہیں۔
موجودہ مالیاتی پالیسی میں 25 لاکھ روپے تک کے شیئر قرضہ کے لیے رسک وزن صرف 100 فیصد اور 25 لاکھ روپے سے زیادہ کے شیئر قرضہ کے لیے 150 فیصد رسک وزن ہے۔ اس سال کی پالیسی نے بھی چھوٹے سرمایہ کاروں کو قرضوں تک رسائی بڑھانے میں مدد فراہم کی ہے. خطرے کا بوجھ 50 فیصد بڑھنے کی صورت میں بینک خود مستقبل میں قرضوں کی بڑی مقدار میں سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہوگا۔
متوقع شرح سود میں اضافہ کے باوجود اسٹاک مارکیٹ میں اضافہ کے اسباب کیا ہیں؟
متوقع شرح سود میں اضافہ کے باوجود
 اسٹاک مارکیٹ میں اضافہ کے اسباب کیا ہیں؟ 
ایک سرمایہ کار نے بتایا کہ گزشتہ چند دنوں کی مارکیٹ کی سرگرمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ چھوٹے سرمایہ کاروں کا ایک گروپ سیکٹر تبدیل کر کر کے مارکیٹ کو بڑھا رہا ہے کیونکہ اب بینک بڑی مقدار میں قرض نہیں دیتاہے. 
ہفتے کے پہلے روز فائنانس کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں زبردست اضافہ دیکھا گیا جس کے بعد یہی اضافہ ہائیڈرو پاور گروپ کمپنیوں میں بھی دیکھنے میں آیا۔ جمعہ کی ٹریڈنگ میں، ایسا رویہ Bikas Bank گروپ کی کمپنیوں میں دیکھا گیا جس کی وجہ سے نیپال اسٹاک ایکسچینج 2100 پوائنٹس تک پہنچ گیا. 
سیکیورٹیز بورڈ کے نئے چیئرمین رمیش ہمل کا مثبت اظہار کہ وہ وقتاً فوقتاً اسٹاک مارکیٹ کی اصلاح کیلئے کچھ نہ کچھ کریں گے، مارکیٹ میں اضافے کی بڑی وجہ ہے.
آنے والے دنوں میں بینکوں کی شرح سود میں اضافے کی توقع کے باوجود اسٹاک مارکیٹ بتدریج بڑھنا شروع ہوگئی ہے
مالیاتی پالیسی کے ذریعے رئیل اسٹیٹ کے کاروباریوں پر سختی کئے جانے کی وجہ سے وہ لوگ بھی اسٹاک مارکیٹ کی طرف راغب ہوئے ہیں. 
نیپال نیشنل بینک نے غیر معروف مقاصد کے لئے زمین کو بطور رہن رکھ کر قرضہ لینے کے بارے میں ہدایت جاری کی ہے کہ کھٹمنڈو راجدھانی کے معاملے میں ایف ایم وی کا صرف 30 فیصد اور کھٹمنڈو سے باہر کے معاملے میں 40 فیصد ہونی چاہیے اور یہ مالیاتی پالیسی میں ظاہر نہیں کیے گئے ہیں۔
تجزیہ کار مکتی آریال کی رائے ہے کہ اس ہدایت نے زمین کے بہت سے تاجروں کی حوصلہ شکنی کی ہے اور ہو سکتا ہے کہ وہ مختصر مدت کے فائدے کے لیے اسٹاک مارکیٹ میں داخل ہوئے ہوں۔
صرف چند ماہ قبل حکومت نے ایک پالیسی متعارف کروائی تھی کہ بینک درجہ بندی کرنے کے بعد ہی زمین کو منجمد کر سکتے ہیں۔ زمین کی درجہ بندی کرتے وقت یہ سفارش کی جاتی کہ یہ قابل کاشت ہے یا غیر زرعی، بینک زمین کو روک کر قرض دیتا تھا۔
Ad
کارکی نامی ایک سرمایہ کار کے مطابق بہت سے سرمایہ کار زمین میں سیاسی الجھن کو دیکھ کر کشمکش میں تھے کہ اپنی بچائی ہوئی رقم کو اسٹاک مارکیٹ یا زمین میں لگا ئیں؟ اسٹاک مارکیٹ کی طرف متوجہ ہوئے ہیں کیونکہ یہاں اتنی الجھن نہیں ہے جتنی کہ زمین کے کاروبار میں ہے. 
حکومت نے ملک میں زرمبادلہ کے کم ذخائر کے باعث 10 اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔ حکومت نے اس پابندی کو 15 اگست تک بڑھا دیا ہے۔ نیشنل بینک نے یہ بھی شرط عائد کی ہے کہ بہت سی اشیاء کی درآمد کے لیے ایل سی کھولتے وقت 50 سے 100 فیصد کا کیش مارجن رکھا جائے۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ کے کاروبار سے وابستہ ان تاجروں میں سے زیادہ تر اس وقت بے روزگار ہیں۔
آریال کے تجزیے کے مطابق ایسے تاجروں نے اپنی کچھ رقم اسٹاک مارکیٹ میں لگانا شروع کردی ہے جس سے مارکیٹ کو ترقی کرنے میں مدد ملی ہے۔ جب مارکیٹ گری تو یومیہ لین دین ایک ارب کے لگ بھگ تھا لیکن گزشتہ چند دنوں میں یہ بڑھ کر 4 سے 5 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ بہت سے سرمایہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اسٹاک ٹریڈرز کے علاوہ دیگر سرمایہ کار مارکیٹ میں داخل ہوئے ہیں۔
Ad
نوٹ : یہ مضمون بابو کرشن مہرجن کی ہے جس کو انہوں نے میرو لگانی کیلئے تحریر کیا ہے. 



Post a Comment

0 Comments

Ad code

Ad Code