نیپال سیکیورٹیز بورڈ(SEBON) نے ہر سال کی طرح اس سال بھی اپنی پالیسی اور پروگرام میں شامل کیا ہے کہ مارکیٹ میں ہیرا پھیری کو روکنے کے لیے عالمی معیار کی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا۔ پالیسیوں اور پروگراموں میں ہمیشہ اچھے موضوعات شامل ہوتے ہیں۔ اگر ان پروگراموں پر عمل کیا جائے تو کیا نیپال کی کیپٹل مارکیٹ دنیا کے کسی بھی ملک سے کم نہیں ہوگی؟
رواں مالی سال کی پالیسی اور پروگرام میں کہا گیا ہے کہ ریگولیٹری کردار کو ہموار کرنے کے لیے اعلیٰ ٹیکنالوجی اور افرادی قوت کو تیار کیا جائے گا۔
حال ہی میں بورڈ میں شیئر کارنرنگ اور اندرونی تجارت کے بارے میں بہت سی شکایات سامنے آئی ہیں۔ صرف گزشتہ جون میں ہی اپر تماکوشی ہائیڈرو پاور کمپنی کے خلاف سیبون میں رائٹ شیئر (Right Share) کے معاملے کو لے کر ایک شکایت درج کی گئی تھی، لیکن اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیاہے. اور تقریباً ایک سال قبل اجوڑ انشورنس(Ajod Insurance) کے 50 فیصد رائٹ سیئر (Right Share) جاری کرنے کی تجویز میں بھی ایسا ہی مسئلہ اٹھایا گیا تھا۔
قانون ساز ادارے کے جانب سے کہا گیا کہ وہ اندرونی معلومات کی بنیاد پر تجارت کے معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے لیکن ایسے معاملات کی تحقیقات صرف زبانی طور پر کی جاتی ہیں۔ کوئی ٹھوس کاروباری فیصلے نہیں کیے جاتے ہیں. عام لوگوں کو اب تک معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ انہوں نے کوئی مؤثر کارروائی کی ہے۔ جس پتہ چلتا ہے کہ ان کا رجحان فیصلہ اور کاروائی سے کنارہ کشی کا ہے۔
بڑی مچھلیوں کو چھوڑ چھوٹی مچھلیوں کو شکار بنانے کا رجحان بہت غالب ہوتا جا رہا ہے۔ کمزور قوانین کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے اور منجھولے سرمایہ کار انسائیڈر ٹریڈنگ اور کارنرنگ جیسی سرگرمیاں کر رہے ہیں۔ دوسری طرف سیکورٹیز بورڈ کے شریک ترجمان روپیس کے سی کے مطابق مارکیٹ میں ہیرا پھیری کو روکنے اور اسے مزید مؤثر بنانے کے لیے آٹومیٹڈ ٹریڈنگ سرویلنس سسٹم (ATSS) متعارف کرانے جا رہے ہیں۔
ان کے مطابق تجارتی نگرانی کے لیے ایک الگ شاخ موجود ہے جو کہ اس طرح کی کاروبار پر نظر رکھتا ہے اور قصوروار کے خلاف شواہد جمع کررہا ہے پھر ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ان کے خلاف کارروائی ہو گی.
ان کے مطابق جب ہم پالیسی اور پروگرام کے مطابق ایک خودکار تجارتی نگرانی کا نظام لائیں گے تو یہ زیادہ موثر ہو گا کیونکہ یہ اس طرح کا کاروبار ہونے پر الرٹ پیدا کرتا ہے جس بنیاد پر اس طرح کے کاروبار کا شناخت کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے.
0 Comments