جون مہینہ میں متوقع تین چوتھائی فیصد پوائنٹس کے اضافے کے بعد فیڈرل ریزرو بینک نے بدھ کو پالیسی کی شرح میں لگاتار دو بار 75 بیسس پوائنٹس (bps) اضافہ کیا ہے. فیڈرل نے گزشتہ چار مہینوں میں چار مرتبہ شرح سود میں اضافہ کیا ہے جوکہ 1994 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔
Photo of federal reserve Bank |
صارفین کی بڑھتی ہوئی لاگت کو روکنے کے لیے یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب بلند افراط زر اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں دنیا کی مالیاتی منڈیوں میں تھرتھراہٹ کا باعث بن رہی ہیں۔
افراط زر کی بلند شرح کی وجہ سے فیڈرل کو ممکنہ طور پر آئندہ مہینوں میں کئی بار مزید شرح سود بڑھانے کی ضرورت ہوگی۔ افراط زر کی رفتار کو کم کرنے کے لیے فیڈرل حکام مزید نمایاں شرح میں اضافے کی طرف بھی رجوع کر سکتے ہیں۔
امریکہ کے ہر اقتصادی فیصلے کا فوری اثر عالمی منڈیوں پر پڑتا ہے کیونکہ اس کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی ہے اور امریکی ڈالر اکثر ماضی اور حال دونوں کی اقتصادی ترقی کی پیمائش کے لیے ایک پیمانہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ایک مضبوط ڈالر کو ترقی یافتہ ممالک میں فائدہ مند سمجھا جاتا ہے تاہم ترقی پذیر اور ابھرتی ہوئی اقوام میں صورت حال مختلف ہوتی ہے.
بڑھتی ہوئی شرحوں کے نتیجے میں پہلے ہی عالمی معیشت میں تباہی پھیل رہی ہے۔ اس پیشین گوئی کے باوجود کہ دوسری سہ ماہی میں اقتصادی ترقی مستحکم رہے گی، بینک آف انگلینڈ نے دسمبر سے لے کر اب تک چار بار شرح سود بڑھائی ہے جو کہ 13 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ جولائی میں یورپی مرکزی بینک کی جانب سے 11 سالوں میں پہلی بار شرح سود میں ایک چوتھائی پوائنٹ تک اضافہ متوقع ہے اور مہنگائی سے دوچار ممالک کی اکثریت میں بھی یہی صورتحال ہے۔
فیڈرل ریزرو کی شرح سود میں 75 بیسس پوائنٹس کا اضافہ اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کا سبب بن سکتا ہے، سرمایہ کاروں کے جوش کو کم کر سکتا ہے اور امریکی ڈالر کے مقابلے میں ہندوستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کر سکتا ہے۔ چونکہ نیپال کی کرنسی ہندوستانی کرنسی سے جڑی ہوئی ہے اس لیے نیپالی روپے کی قدر میں کمی زیادہ تر اسی مدت کے دوران امریکی ڈالر کے مقابلے ہندوستانی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے ہے۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ جب ہندوستانی کرنسی مضبوط ہوتی ہے تو نیپالی کرنسی خود بخود مضبوط ہوتی ہے اور جب کمزور ہوتی ہے تو نیپالی کرنسی بھی کمزور ہوتی ہے.
نوٹ:یہ مضمون شیئر سنسار کے ویب سائٹ پر شائع مضمون ہے.
0 Comments