دنیا کو کاروبار کو فروغ (Entrepreneurship)کی ضرورت ہے۔
کچھ ہفتے پہلے ایک انگریز تاجر رچرڈ برینسن ورجن گیلیکٹک پر سوار سیاح کی حیثیت سے خلا میں گیا۔ اگرچہ وہ ایک برطانوی شہری ہےلیکن اس نے اپنی پہلی خلائی پرواز شروع کرنے کے لیے امریکہ کا انتخاب کیا کیونکہ امریکہ کے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ اگر آپ محنت ، جذبہ اور لگن کو یکجا کریں تو سب کچھ ممکن ہے۔ یہاں نیپال میں ہمیں سب سے پہلے لوگوں کےمنفی سوچ کوختم کرنی چاہئےجو یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ ہر چیز ناممکن ہے۔ساتھ ہی لوگوں میں مثبتیت کا جذبہ پیدا کرنی چاہئےجس سے کہ یہاں بھی ترقی ہو سکتا ہے۔
ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں یقین پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ طلباء کو محسوس ہو کہ وہ علم پیدا کر رہے ہیں۔ ابھی تعلیم صرف علم کے استعمال پر مرکوز ہے ، اور ہم صرف وہی سیکھتے ہیں جوکتابوں میں لکھا گیا ہےجبکہ تعلیم کو تخلیقی صلاحیتوں اور تنقیدی سوچ کے ذریعے علم پیدا کرنے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ہمیں ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں ہر ایک کو اختراع کا صحیح موقع ملے۔لوگوں کو ہمیشہ وسائل تک مساوی رسائی حاصل ہونی چاہیے۔
اگرآپ آج سے 50 سال بعدکے دنیا کا تصور کریں گے تواندازہ ہوگا کہ لوگوں کو بہت سی چیزوں کے لیے جدوجہد کرنا پڑے گی۔ اور ان چیزوں میں اہم چیز کھانا ہے۔ اس وقت دنیا کی نصف آبادی خوراک سے محروم ہوسکتی ہےاور دنیا کے لوگوں کوکھانا فراہم کرنے کے لیے دنیا کو کاروبار کو فروغ (Entrepreneurship)کی ضرورت ہوگی۔ یہ اس بات پر منحصر ہوگا کہ ہم نے کاشت کاری کیلئے کونسا نیا طریقہ ایجاد کیا ہےجس سے کہ وافر مقدار میں غلہ پیداہو اور ہم میں سے کوئی بھی خوراک سے محروم نہ ہوسکے۔ تو کیوں نہ آج سے ہم ایک جدید قوم کی تعمیر شروع کریں؟
ماضی کے مقابلے میں نیپال میں بہت سی مثبت چیزیں ہو رہی ہیں آبادیاتی تبدیلی ان سب میں سب سے زیادہ قابل ذکر ہے۔ ہم ایک نوجوان قوم ہیں ، جس کا مطلب ہے کہ یہ بہت زیادہ آبادیاتی منافع پیدا کر سکتی ہے۔ لیکن اگر ہم فعال آبادی کو معاشی سرگرمیوں میں شامل نہیں کر سکتے تو آبادیاتی منافع (Dividend Demographic)تباہی میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ اب ہمارا رابطہ عالمی برادری سے منسلک ہے۔ ہم بڑی عالمی منڈیوں ہندوستان اور چین کے درمیان ہیں جہاں دنیا کی آدھی آبادی رہتی ہے۔ اگر ہم ابھی سے سخت محنت کرتے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ نیپال آنے والی دہائیوں کے لیے ایک ترقی پسند سمت کی طرف گامزن ہیں۔
پریشان کن بات یہ ہے کہ ہم ذات،ثقافت اور مذہب کی وجہ سے آپس میں بٹے ہوئے ہیں اور ان تقسیموں کی وجہ سے ہی ہمیں ایک ایسےبحران اور تنازعہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہےجس سے ہماری پوری قوم ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جائگی۔
آج کے نوجوان آسانی سے پریشان ہو جاتے ہیں۔ عالمی رابطے کی وجہ سے وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا کیسے چل رہی ہے اور اگر انہیں مواقع کا پیچھا کرنے کا راستہ نہیں ملا تو وہ لڑیں گے یا ہار جائیں گے۔ بعض اوقات وہ باغی بھی بن جاتے ہیں۔ یہ انسداد ثقافت (Counter culture)کی شکل اختیار کر سکتا ہے جو امریکہ میں 1970 کی دہائی میں وجود میں آیا تھا۔جو کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی میں طلباء کا احتجاج ، یا ہماری اپنی ماؤ نواز شورش کی طرح ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ ماؤنواز شورش کی وجہ سے نیپال میں کیا تباہی مچی تھی اور کس قدر جانی ومالی نقصان ہوا تھا جن کی تلافی اب تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔اس شورش کی وجہ سے پھیلی سیاسی خلفشار تاہنوز قائم ہے اور ختم ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔
چیلنجوں کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یہ امید کی طاقت ہے جو دنیا کو بدل دیتی ہے۔ لہذا میں لوگوں کو پرامید رہنے کی تجویز دیتا ہوں۔ اورانہیں کبھی بھی سیکھنا نہیں چھوڑنا چاہئے۔ کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ آپ ہمیشہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے اور تیز کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔ لہذا ، زندگی ایک مشق کی طرح ہے جہاں کامل کامیابی یا کامیابی کا معیار نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ لوگ سنگ میل کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں ، لیکن ایک بار جب آپ ایک سنگ میل پر پہنچ جاتے ہیں ، تو آپ ہمیشہ ایک اور قائم کرتے ہیں۔
0 Comments