ڈھلکے ور-مظفر پور ٹرانسمیشن لائن
نیپال اور بھارت کے درمیان 400 کے وی ڈھلکے ور-مظفر پور ٹرانسمیشن لائن کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں نہیں لایا گیا ہے ، لیکن نیپال الیکٹرک اتھارٹی پچھلے 25 سالوں سے اسے تیار کرنے والی کمپنیوں کو تقریبا1 ارب روپے سالانہ ادا کر رہی ہے۔ پچھلے سال 11 نومبر کو ٹرانسمیشن لائن پر پہلی بار بجلی چارج ہونے کے بعد ، یہ توقع کی جا رہی تھی کہ نیپال اس لائن کو بھارت کے ساتھ تجارت کے لیے زیادہ سے زیادہ استعمال کر سکتا ہے۔بھارت نے نیپال کے لیے اس سرحد پار ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ 350 میگاواٹ بجلی پہنچانے کا راستہ صاف کر دیا ہے۔
(NTPC Vidyut Vyapar Nigam Ltd)جو کہ بھارت کی طرف سے نیپال کے ساتھ بجلی کی تجارت کے لیے نامزد ایجنسی ہے ، اس ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے نیپال کو 350MW تک بجلی فروخت کر سکتی ہے۔ تقریبا دو ماہ قبل نیپال اتھارٹی نے پڑوسی ملک بھارت کو ایک درخواست بھیجی تھی جس میں بجلی فروخت کرنے کی منظوری مانگی گئی ۔لیکن بھارت نے نیپال الیکٹرک اتھارٹی (NEA) کو اپنی اضافی توانائی بھارت کو فروخت کرنے کی منظوری میں تاخیر کر رہا ہے۔بھارتی بے راہ روی نیپال میں بجلی کے ضیاع کا باعث ہے۔
نیپال الیکٹرک اتھارٹی بجلی ضائع ہونے کی وجہ سے پیسے کھو رہی ہے اور وہ ڈھلکے ور تا مظفر پور کراس بارڈر ٹرانسمیشن لائن کو اپنی گنجائش تک استعمال کرنے میں ناکامی پر "بکنگ چارجز" بھی برداشت کر رہی ہے۔این ای اے میں ٹرانسمیشن ڈائریکٹوریٹ کے چیف درگھایو کمار شریستھا (Dirghayu Kumar Shrestha)نے کہا کہ ہم کمپنیوں کو بھارت کے ساتھ بجلی کی تجارت کے لیے ٹرانسمیشن لائن کی بکنگ کے لیے تقریبا1 ایک ارب روپے سالانہ چارج پہلے ہی ادا کر دیا ہے۔ "لیکن یہ ہمارے لیے سستا ہوتا اگر ہم ٹرانسمیشن لائن کو اس کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت کو استعمال کرتے۔"
پاور ٹرانسمیشن کمپنی نیپال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شیام یادو کے مطابق ، اتھارٹی ہر ماہ تقریبا20 ملین روپے نیپالی کمپنی کو ادا کرتی ہے۔
اتھارٹی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کی وزارت بجلی کے فیصلے کے منتظر ہیں۔ ڈھلکے ور-مظفر پور کراس بارڈر ٹرانسمیشن لائن میں ایک ہزار میگاواٹ بجلی منتقل کرنے کی گنجائش ہے۔
اتھارٹی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ٹرانسمیشن لائن حال میں استعمال نہیں ہو رہی کیونکہ نیپال بھارت کو بجلی نہیں بیچ سکتا ، جبکہ نیپال کو مانسون میں بھارت کی بجلی کی ضرورت نہیں ہے۔
این ای اے کے ترجمان سریش بہادر بھٹرائی نے کہا ، "اس ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان 20 میگاواٹ سے 50 میگاواٹ بجلی کی آمد اور اخراج ہوا ہے ۔"
نیپال میں بھارت کے بہار اور اتر پردیش ریاستوں کے ساتھ پاور ایکسچینج میکانزم ہے۔ اس میکانزم کے تحت جب بھی ضرورت ہو دو ممالک ایک دوسرے سے بجلی خرید سکتے ہیں۔
بھٹارائی نے کہا ، "اگر این ای اے کو بھارت کی پاور ایکسچینج مارکیٹ میں باقاعدگی سے بجلی فروخت کرنے کی اجازت ہوتو یہ زیادہ کما سکتا ہے اور بکنگ چارجز کی ادائیگی کی قیمت ادا کی جائے گی۔
ان کے مطابق ، این ای اے نجی شعبے کے بجلی پیدا کرنے والوں پر وہیلنگ چارجز بھی لگا سکتا ہے اگر ان کی بجلی اس ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے منتقل ہوتی ہے۔ (وہیلنگ چارج فیس ہے جو پاور پروڈیوسرز اور پاور نیٹ ورک کے صارفین لائن کے استعمال کے لیے ٹرانسمیشن لائن مالکان اور آپریٹرز کو ادا کرتے ہیں۔)
نیپالی حکام حیران ہیں کہ بھارت نیپال سے بجلی خریدنے کی منظوری کے عمل میں تاخیر کیوں کر رہا ہے حالانکہ وہ کوئلے کی قلت کی وجہ سے توانائی کے بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ وہاں کوئلے سے 70 فیصد بجلی پیدا ہوتی ہے۔ بی بی سی کے مطابق گزشتہ دو ماہ میں بجلی کی کھپت 2019 کی اسی مدت کے مقابلے میں تقریبا 17 فیصد بڑھ گئی ہے ، جبکہ کوئلے کی عالمی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ ہوا ہے اور بھارت کی درآمدات دو سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہیں۔ نیپالی حکام کا خیال ہے کہ بھارت کی جانب سے نیپال کوبجلی فروخت کرنے کی فوری منظوری مل جائیگی ۔
دونوں ممالک کو فائدہ:
نیپال کے پاس اضافی انرجی (surplus power)ہونے کی وجہ سے این ای اے کو توانائی کے ضیاع کو روکنے کے لیے کچھ پاور پلانٹس کے کچھ ٹربائن بند کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
اتھارٹی کے مطابق نیپال میں موجودہ (peak hour)کی مانگ 1500 میگاواٹ ہے۔ جبکہ ملک اس وقت 2000 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہا ہے ، اور اس میں سے 1900 میگاواٹ پن بجلی منصوبوں سے پیدا ہوتا ہے۔
دو ہفتے قبل کاٹھمانڈو پوسٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اتھارٹی کے منیجنگ ڈائریکٹر کل مان گھسنگ نے کہا کہ جب مانگ میں نمایاں کمی آتی ہےتو رات کے وقت صرف900-1100میگاواٹ ہی استعمال کیا جاتا ہے اور دن کے دوران 1200-1300میگاواٹ استعمال کیا جاتا ہے ۔
ان کے مطابق ، نیپال سے بجلی خریدنا بھارت کے لیے سستاہوگاکیونکہ انڈین انرجی ایکسچینج میں بجلی کی شرح 20 روپے فی یونٹ تک پہنچ گئی ہے۔
گھیسنگ نے کہا ، "ہم 5 روپے فی یونٹ کی حد میں قیمت پیش کر سکتے ہیں جو نہ صرف ہندوستان کے لیے سستا ہوگا بلکہ وہاں بجلی کی قیمتوں میں توازن پیدا ہوگا اور ہندوستانی معیشت کو فروغ ملےگا۔"
دراصل کراس بارڈر بجلی کی خرید و فروخت نیپال اور ہندوستان دونوں ہی کیلئے فائدہ مند ہے۔
0 Comments